جانوروں کا مطالعہ

جانوروں کا مطالعہ
کیا ہم انسان جانوروں کی کوئی قسم ہیں یا ہم ایک بالکل ہی الگ ہستی ہیں؟ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ بہت سے سوالات اٹھتے ہیں مثلاً ہم انسان، بہت تھوڑوں کو چھوڑ کر، بغیر کپڑوں، یا بغیر گھر کے نہیں رہ سکتے، دوسری ضروری اشیاء کو تو چھوڑ ہی دیں۔ دوسری طرف جانوروں کو ایسی کوئی احتیاج نہیں۔ ہم انسان اپنے آپ کو بہت اہم سمجھتے ہیں؛ تو آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم انسان ہی نہیں بلکہ جانور چرند، پرند اور درند اور حشرات العرض سب کو اللہ نے اس دنیا کے لیے کتنا اہم بنایا ہے۔

- نظریہ ارتقاء کے مطابق، حقیقت یہ ہے کہ تمام حیات کی ابتدا ایک ہی طریقہ سے ہوئی ہے، اور جیسے جیسے یہ جاری رہتی ہے اور نشوونما پاتی ہے یہ مختلف گروہوں میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام جاندار مل کر زمین پر زندگی برقرار رکھنے میں ایک بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ناصرف جانور بلکہ درخت بھی؛ بلکہ کہہ لیں کہ تمام ہی ذی روح۔ دنیا میں، ایک ماحولیاتی نظام بہت بڑے پیمانے پر کام کر رہا ہے اور تمام جاندار اس نظام کی بقاء کے لیے ضروری ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں زندگی، جس صورت میں بھی ہو، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ سمجھ لیں کہ اللہ نے ہر چیز کام کی بنائی ہے۔

- اس سلسلے میں یلوسٹون پارک، امریکہ، کی کہانی بار بار سنائی جانی چاہیے۔ اس کہانی کا آغاز 1872 سے ہوتا ہے جب اسے ایک قومی تفریح گاہ کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ کوئی 2.2 ملین ایکڑوں پر محیط ایک بہت بڑا علاقہ جس میں پہاڑ، دریا، جنگل، وادیاں اور کئی قسم کے جنگلی جانور تھے۔ یہ قدرت کا شاہکار ہے۔

- اس زمانے میں اس علاقے میں اور جانوروں کے ساتھ سرمئی بھیڑیوں کے غول بھی پھرا کرتے تھے۔ علاقے کے شکاریوں کے لیے یہ بھیڑیے بڑا اچھا شکار تھے۔ ان کے شکار کی خاص وجوہات تھیں: شوقیہ شکار، اپنے مویشیوں کو ان سے بچانا، اور کبھی کبھی انسانوں کی حفاظت کی خاطر؛ ان کی کھال شکاری کا انعام ہوا کرتی تھی۔ اُنہوں نے بڑے پیمانے پر شکار شروع کر دیا، یہاں تک کہ ان کا خاتمہ کرکے دم لیا۔ 1926 میں یہ چراگاہ جسے شکارگاہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا بھیڑیوں سے پاک ہو چکی تھی۔

- اس کے بعد وہ ہوا جس کی توقع کرنی چاہیے، یعنی مقامی بڑے قد کا بارہ سنگھا اب بے خطر ہو گیا اور اس کی آبادی بے تحاشہ بڑھی۔ اب بارہ سنگھے پورے علاقے کی زمین پر چرنے لگے، وہ نئی جھاڑیوں اور درختوں کو بڑا ہونے سے پہلے ہی ختم کرنے لگے، گویا اب درختوں کی تعداد کم ہونے لگی، جنگل اجڑنے لگا۔

- امریکہ میں 1900 کے ابتدائی سالوں میں ختم ہوتی ہوئی جنگلی حیات پر ماہرین کی توجّہ گئی، اور آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ تب سے تحفظِ جنگلی حیات کے قوانین تین بار بنے۔ پہلا 1966، دوسرا 1969 اور تیسرا اور آخری 1973 میں۔

- جنگلات کے ماہرین نے یلو اسٹون پارک کے 1930 میں دورے شروع کیے ، وہ اس کی زبوں حالی سے پریشان ہوگئے، انہوںے دیکھا کہ پودوں کے نہ ہونے سے زمین کا کٹاؤ بڑھ گیا ہے اور علاقہ بنجر ریگستان بنتا جا رہا ہے۔

- اسی دوران ایک بڑی تحقیق سے پتا چلا کہ جو حالات یلو اسٹون کے ہیں وہ اور پارکوں کے بھی ہیں اور اس قسم کے حلات کی ایک بڑی وجہ انسان کی کوتاہ نظری اور لالچ ہے۔ اس وقت جانوروں کی نسلوں کو جو معدومیت کے خطرے سے دوچارتھیں بچانے کے لئے ’قانون تحفظِ جنگلی حیات‘ (انڈینجرڈ اسپیشیز ایکٹ) بنایا گیا۔

- 1974 ء میں یلو اسٹون کے سرمئی بھیڑیوں کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔ کوئی 70 سال بعد یہ احساس اجاگر ہوا تھا کہ بھیڑیے حقیقت میں پارک کے لیے برے نہیں تھے۔ یلو اسٹون کے ماہرینِ جنگلی حیات اس نتیجہ پر پہنچے کہ کینیڈا کے بھیڑیوں کو اس پارک میں لا کے چھوڑا جائے۔ اس پر عمل ہوا اور 12 جنوری 1995 میں جیسپر نیشنل پارک ، کینیڈا، سے پہلے آٹھ بھیڑیے یہاں پہنچے۔

- بھیڑیے بڑے اور وسیع علاقوں میں گھومنے پھرنے کے عادی ہوتے ہیں اور ان میں اپنے گھر واپس پہنچ جانے کی جبلّت پائی جاتی ہے۔ اس بات کا خوف تھا کہ اتنے مہنگے طریقے سے منگوائے گئے بھیڑیے سیدھے شمال کی سمت اپنے گھر کینیڈا کی طرف چل پڑیں گے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے بھیڑیوں کو پارک میں بسانے کے لئے یلواسٹون انتظامیہ نے تین تعارفی علاقے بنائے جن میں 14 بھیڑیوں کو کئی ہفتوں تک رکھا گیا۔ ان کے لیے مقامی بارہ سنگھوں کی لاشیں ڈالی گئیں تاکہ بھیڑیوں کو اپنے نئے ماحول کی لذت سے آشنا کرایا جا سکے۔ اس کے بعد انہیں آزاد کر دیا گیا۔

- آنے والے سالوں میں بھیڑیوں نے بارہ سنگھوں کی آبادی کو کم کر دیا اور کھلی وادی کو ضرورت سے زیادہ چرے جانے سے بچالیا۔ جتنے بارہ سنگھوں کا خاتمہ ہوا وہ ماہرینِ جنگلی حیات کے اندازے سے دگنے تھے اس پر بہت سے مقامی بارہ سنگھوں کے شکاریوں نے پھر یہ تنازعہ اٹھایا کہ بھیڑیے تمام بارہ سنگھوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ یہ بحث آج کل بھی بہت زوروں سے جاری ہے۔ ماہرین اور سائنسدان خوش تھے کہ بھیڑیوں نے یلوسٹون کو بچا لیا۔ البتہ پارک کی سرحد سے اگر نکل کر قریبی علاقوں کا آپ دورہ کریں تو آپ کو یقیناً وہاں کے رہنے والوں سے یہ سننے کو ملے گا کہ بھیڑیے صرف مارنے کے لیے مارتے ہیں، شوقیہ، اس کے علاوہ کھیتوں اور جنگلی جانوروں میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں۔

- حقیقت یہ ہے کہ ان بھیڑیوں کی موجودگی نے ماحول کے نظام کے اُس دائرے کو پورا کیا ہے جو یہ ہے کہ: ہریالی کو چرند کھائیں اور چرند کو درندے کھائیں، پھر چرند کی لاشوں کو پرند بھی کھائیں؛ پھر ظاہری بات ہے کہ کھاد بھی بنتی ہے۔ اگر دیکھیں تو ہریالی بے تحاشہ موجود ہے، اس کے بعد چرند کی آبادی ہے اور سب سے کم درندوں کی، تو ایک توازن قائم رہتا ہے۔ پھر چرند کی لاشوں کا بچا کچا دوسرے چھوٹے جانوروں کے کام آتا ہے تو ان کی تعداد بھی قائم ہوتی ہے۔ بہت سے پرند بھی لاشوں کو کھاتے ہیں۔ اور جب درخت چرند کے کم ہونے سے پھلتے پھولتے ہیں تو ان پر پرند اپنے بسیرے بنا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرند جب اپنا فضلہ پھیلاتے ہیں تو اس سے سارے علاقے کو کھاد ملتا ہے۔ گویا ایک مشین کا پہیا چل پڑتا ہے۔